دیکھیں کیسے مکہ مکرمہ نے مزائل حملہ ناکام کیا
عکسری امور کے مصرری ماہر ہشام الحلبی نے اُس میزائل کی نوعیت اور صلاحیت پر روشنی ڈالی ہے جو حوثی ملیشیاؤں نے مکہ مکرمہ کی سمت داغا تھا۔
" یہ زمین سے زمین تک مار کرنے والا "اسکڈ" میزائل ہے جو یمن کی سرکاری فوج کے پاس موجود میزائلوں میں شامل ہے۔ ان اسکڈ میزائلوں کو یمن نے روس سے حاصل کیا تھا اور علی عبداللہ صالح کی ملیشیاؤں نے ان پر قبضہ کر لیا۔ الحلبی کے مطابق یہ میزائل جس گاڑی پر رکھا جاتا ہے اس کو چلانے اور میزائل کو داغنے کے لیے اعلی ٹکنالوجی اور جدید مہارت کی ضرورت ہوتی ہے اور غالبا حوثی ملیشیاؤں کو اس کی تربیت حاصل نہیں۔ لہذا اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ یہ میزائل ایرانی ماہرین یا پھر معزول صدر صالح کی ملیشیاؤں کے عسکری ذمے داران نے چلایا ہے۔
حوثی ملیشیاؤں کی جانب سے مملکت سعودی عرب کے مغرب میں مقدس اراضی کو نشانہ بنانے کی کوشش کے بعد عالم اسلام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مذکورہ بیلسٹک میزائل کو عرب اتحاد کے دفاعی نظام نے فضا میں تباہ کر دیا اور وہ مکہ مکرمہ سے تقریبا 65 کلومیٹر کی دوری پر ناکارہ ہوکر گر گیا۔
الحلبی کا مزید کہنا ہے کہ اس میزائل کی پہنچ 300 کلومیٹر سے زیادہ ہے جو زمینی تنصیبات کو نشانہ بناتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب کے پاس میزائل شکن دفاعی نظام موجود ہے جو اہداف پر پہنچنے سے قبل ان میزائلوں کو فضا میں یا زمین پر تباہ کر سکتا ہے۔
عکسری امور کے ماہر کے مطابق یہ میزائل معزول صدر صالح کے عسکری بریگیڈوں کے پاس ہیں اور ان کی متعدد اقسام a ,b ,c,d ہیں۔ پہلی قسم"a" میزائل گزشتہ صدی میں 50ء کی دہائی میں متعارف ہوئی اور اس کی پہنچ 180 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ دوسری قسم"b" میزائل 60ء کی دہائی کے آغاز میں منظر عام پر آیا اور اس کی پہنچ 220 کلومیٹر ہے۔ تیسری قسم"c" میزائل 60ء کی دہائی کے اواخر میں متعارف ہو اور اس کی پہنچ 280 کلومیٹر ہے جب کہ چوتھی قسم "d" میزائل 80ء کی دہائی میں دنیا کے سامنے آیا جس کی پہنچ 300 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ یہ میزائل ہدف کو نشانہ بنانے کی درستی ، اپنی تیز رفتاری اور پہنچ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
اس نوعیت کے میزائلوں کو سابق عراقی صدر صدام حسین نے ایران کے خلاف جنگ اور خلیج کی پہلی جنگ (1990) کے دوران استعمال کیا تھا۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا نے بھی اس نوعیت کے جدید میزائل تیار کیے۔ ہشام الحلبی کے مطابق سعودی عرب کو ان میزائلوں سے کوئی اندیشہ نہیں اس لیے کہ مملکت کے پاس جدید ترین میزائل شکن نظام موجود ہے جو ان اسکڈ میزائلوں کو اہداف پر پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں تباہ کرنے اور زمین پر ان کے لانچروں
کو تباہ کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس نوعیت کے میزائلوں کو سابق عراقی صدر صدام حسین نے ایران کے خلاف جنگ اور خلیج کی پہلی جنگ (1990) کے دوران استعمال کیا تھا۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا نے بھی اس نوعیت کے جدید میزائل تیار کیے۔ ہشام الحلبی کے مطابق سعودی عرب کو ان میزائلوں سے کوئی اندیشہ نہیں اس لیے کہ مملکت کے پاس جدید ترین میزائل شکن نظام موجود ہے جو ان اسکڈ میزائلوں کو اہداف پر پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں تباہ کرنے اور زمین پر ان کے لانچروں
کو تباہ کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔